گول گلی کی انوکھی عید


۔ نیر فہیم خان 
گول گلی کچھ انوکھی ہی تھی ۔چھوٹی بڑی گلیوں کے بیچ یہ متوسط طبقے کا علاقہ تھا ۔اس میں اندر جانے کا راستہ تھا مکان کچھ اس بھول بھلیوں کی طرح بنے تھے۔کہ گلی آگے جا کر بند ہو جاتی تھی ۔لوگوں کو گھوم کر دوبارہ باہر جانا پڑتا تھا ۔اسی لئے اس کا نام گول گلی پڑ گیا۔ ۔اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے کی بلکہ بہت نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور تھی ۔چند ہی لوگ تھے جو مالدار تصور کیے جاتے تھے ۔ ان میں سے ایک گھر حاجی صاحب کا تھا ۔گلی جہاں بند ہوتی تھی وہیں ان کا قدیم زمانے کا بنا عالی شان گھر تھا ۔محلے کے سب گھروں سے اونچا ۔کئ سیڑھیاں چڑھتے تھے تو مین گیٹ آتا تھا ۔
سنا تھا کسی زمانے میں کسی وزیر کی حویلی تھی۔اس کی بناوٹ کا اپنا ہی رعب تھا ۔حاجی صاحب کے آباؤ اجداد جب ہجرت کرکے پاکستان آگئے تو ان کو یہ گھر ملا تھا جب سے ہی ان کی تیسری نسل اس گھر میں پروان چڑھ رہی تھی۔۔حاجی صاحب اپنی نیک نامی کی وجہ سے بے حد مشہور تھے ۔محلے کے غریب لوگوں کی مدد کرتے تھے ۔ علاقے میں بھی خاصی عزت تھی ۔مگر ان کے نام کو خاص پہچان قربانی کے جانور وں نے دی تھی شروع سے ہی ان کے گھر بہترین جانور لاۓ جاتے تھے۔اس بات پر انہوں نے کبھی کمپرومائز نہیں کیا تھا ۔لوگ دور دور سے ان کے جانور دیکھنے آتے تھے جو وہ اپنے گھر سے منسلک بڑی سی ہال نما جگہ پر رکھتے تھے۔ مہنگے سے مہنگا جانور ان کے گھر آتا تھا۔بقول حاجی صاحب 
۔میں کون سا اپنے پلے سے دے رہا ہوں جس رب نے دیا ہے اسی کے نام پر دے رہا ہوں ۔
۔قربانی کا گوشت بھی سب کو
 اتنا تقسیم کرتے تھے کہ لوگوں کی سچ میں عید ہو جاتی تھی ۔ان کے قربانی کے جانور کبھی بھی ڈیپ فریزر کی قبر میں دفن نہ ہوے تھے ۔پورے محلے میں حصہ جاتا تھا۔سب کو یقین ہوتا تھا کہ چاہے کہیں سے گوشت آئے نہ آئے۔حاجی صاحب کے گھر سے تو ضرور آئے گا۔اسی لیے محلے والوں کی بھی جانوروں میں دلچسپی حد سے سوا ہوتی تھی ۔کیا بچہ کیا جوان سب ہی حاجی صاحب کے جانور کا انتظار کر تے تھے۔اللہ نے حاجی صاحب کو بے حساب عطا فرمایا تھا۔وہ بھی بے دریغ خرچ کرتے تھے۔ محلہ والے ان سے بہت خوش تھے ۔,🐄🐄🐄🐄🐄🐄
بقر عید کی آمد آمد تھی ۔ہر سال کی طرح گلی میں کرسیاں لگائی گئی تھی۔حاجی صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ محفل لگایا کرتے تھے۔
 اور سنائیے۔۔حاجی صاحب۔۔کب جانور لارہے ہیں ؟
جب بچوں کو فرصت مل جائے اور پسند اجاے۔اللہ کے حکم سے اسی وقت دروازے پر کھڑا ہو گا ۔
اپ کے جانوروں کی تو پورے علاقے میں دھوم ہے۔
بس صاحب اللہ کا کرم ہے۔
ہاں جی کوئ مقابلہ نہیں کر سکتا۔کسی نے لقمہ دیا۔
مقابلہ کرنا بھی نہیں ہے میرے بھائی۔۔۔
ہم نے تو رب کو خوش کرنا ہے دل سے ۔۔۔ایمانداری سے ۔۔۔
یہ مقابلہ کرنا ہمیں پسند نہیں۔
یہ تو آپ کی محبت ہے کہ دل رکھ لیتے ہیں
انہوں نے انکساری دکھائی۔
ارے نہیں پتہ ہے لوگ دور دور سے دیکھنے آتے ہیں ۔
ہم کیا ہماری اوقت کیا یہ تو اللہ کا کرم ہے ۔اور اتنی تعریف نہ کرو ۔خوامخواہ شیطان مردود دل میں غرور پیدا کر دے گا۔ساری قربانی اکارت چلی جائے گی۔
نیکی برباد ۔گناہ لازم ۔میں تو اپنے بزرگوں کی راہ پر گامزن ہو تے ہوئے اپنی سی کوشش کرتا ہوں۔اس کی دیے مال میں سے اسی کی راہ پر خرچ کرتا ہوں۔بچوں کو سختی سے منع کر دیا ہے کہ کوئ وڈیو کوئی تصویر سوشل میڈیا پر نہ ڈالی جائے۔مگر پھر بھی کوی باہر والا ڈال دیتا ہے ۔مجھے وہ بھی پسند نہیں ۔محلے میں اس لیے قربانی کرتے ہیں کی محلے کے بچے خوش ہو جاتے ہیں۔انہوں نے تفصیلی جواب دیا۔
مگر میں تو ہر بار ہی بیگم۔کے سامنے شرمسار ہو جاتا ہوں۔وہ یہ ہی طعنہ دیتی ہیں کہ آپ کو کبھی ڈھنگ کا جانور نہیں ملتا ۔حاجی صاحب کیا زبردست جانور لاتے ہیں۔
قربانی کے جانور ہر کیا محیط۔۔۔اپ کے کئ اور کرتوت بھی ایسے ہیں کہ بھابھی کے سنے شرمسار ہی رہتے ہیں۔کسی نے چٹکلہ چھوڑا 
زبردست قہقہہ پڑا تھا ۔،،😁😁😁😁وہ تھکا ہارا گھر میں داخل ہوا۔ صحن میں کوئی نہیں تھا۔گھر میں عجیب سے خاموشی تھی۔صحن میں بیٹھی بیوی کا چہرہ بھی اترا ہوا تھا۔کیا ہوا؟
 کیا بات ہے؟
کچھ نہیں۔۔
تم ہاتھ منہ دھو لو۔ میں کھانا لگاتی ہوں۔اس کی بیوی صاف ٹالا تھا۔
فیضان کہاں ہے؟ نظر نہیں آ رہا؟
.اندر کمرے میں ہے۔تم اسے چھوڑو۔مگر وہ تو میری آواز سن کر ہی بھاگا چلا آتا ہے۔
آج کیا ہوا؟
وہ کہتے ہوئے بے قرار سا کمرے میں داخل ہوا۔
وہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا۔اس میں تو اس کی جان بستی تھی ۔ رافعہ
روکتی رہ گئ۔فیضان تکیے میں منہ چھپائے پلنگ پر لیٹا ہوا تھا۔وہ تڑپ کر آگے بڑھا۔
فیضان کیا ہوا بیٹا۔
ابو۔۔باپ کی آواز سن کر وہ اٹھا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ۔۔۔
فیضان ۔۔۔
ابو ۔۔۔۔
رافعہ نے اشارہ کیا۔باپ نے سینے سے لگا لیا۔باپ کی شفقت کی گرمی میں ۔ماں کی تنبیہ پگھل گئی۔
ابو۔۔۔آج قبول چچا کے بیٹے نے مجھے بہت برا بھلا کہا۔
کیوں۔۔۔اسے طیش تو آیا مگر ضبط کرکے نرمی سے پوچھا۔
وہ اتنا اچھا بچہ لے کر آئے تھے بالکل سفید لمبے کانوں والا۔
میں نے کہا مجھے بھی بکرا گھمانے دو۔
کہنے لگا یہ ہمارا بکرا ہے ۔تمہیں اتنا شوق ہے تو اپنابکرا لے آؤ ۔
میں نے کہا ابھی میرے ابو کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
 تو کہنے لگا پھر اتنے مہنگے شوق بھی مت پالو جب اپنا جانور لے آؤ تو پھر اسے گھمانا۔۔
اب وہ کیا ہم کبھی بھی بکرا نہیں لے سکیں گے ۔
 میں ہر سال انتظار کرتا ہوں آپ نے وعدہ کیا تھا۔اگلے سال ۔
 مگر ہر سال آپ کے پاس پیسے نہیں ہوتے ۔ہم اپنا بکرا کب لیں گے؟
اس کے معصوم چہرے پر سوال تھا اور آنکھوں میں آنسو نکلنے کے لئے بے تاب ۔۔۔
۔اسد کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا تھا۔موٹو کو تسلی دینے کے لئے اس کے پاس کھوکھلے الفاظ بھی نہیں تھے۔۔
مہنگائی کے جن کو قابو کرتے کرتے وہ بے حال ہو رہا تھا۔
اوپر سے کرونا کی آفت نے الگ تباہی مچائی ہوئی تھی۔
معمولی مزدوری کرنے والا اسد سے بکرے کے خواب ہی دیکھ سکتا تھا۔جی اس نے بیٹی کا سوال بھرا چہرہ اپنے سینے میں چھپا لیا۔ فیضان کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے امیدکےجگنوبجھنے لگے تھے۔۔پتا تھا اندھیرا میں ڈوبا جا رہا تھا۔
کھانا کھا لیں رافیعہ کی آواز بھیگی ہوئی تھی۔
میں موجود تینوں نفوس کی بھوک مر گئی تھی ۔،☀️☀️☀️☀️☀️☀️
اے میرے رب تو جانتا ہے کہ میں تیری خوشنودی کے لئے کرتا ہوں۔
 مجھے ریاکاری اور تکبر سے بچا۔
 لوگ شیطان کا آلہ کار بن کر میرے دل میں ریا کاری اور تکبر کا بیج بونا چاہتے ہیں ۔شیطان کے جال سے بچا۔میری عبادت اور ریاضت کو ضائع ہونے سے بچا جو صرف تیری خوشنودی کی خاطر کی جاتی ہے۔جب بھی لوگ ان کی جانور کی تعریف کرتے تھے وہ اسی طرح گڑگڑا کر دعا کرتے تھے۔دادا آپ کیا دعا کر رہے ہیں ۔
ان کا ننھا پوتا ان کے پاس لیٹ گیا۔آپ نے عبادت کی حفاظت کی دعا اپنے ایمان کی حفاظت کی دعا۔۔ہمارا کھلا دشمن ہے 
 ہمیں برباد کرنا اس کا مشن ہے۔ اس نے اللہ سے مہلت لی ہوئی ہے۔یہ جان اتنے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ لوگ بچ نہیں سکتے۔اللہ کا کرم شامل حال نہ ہو ہم اس مردود کے شیطانی حربوں کا شکار رہتے ہیں۔یہ کبھی ہماری اپنوں اور دوستوں کے ذریعے ہمارے ایمان پر حملہ کرتا ہے اور ہمیں گمراہ کرتا ہے۔جب بھی کوئی اگر تمہارا اپنا اللہ تعالی کے حکم کے خلاف کوئی بات کہہ رہا ہوں تو سمجھ لینا کہ وہ شیطان مردود کے جال میں پھنسا ہوا ہے اور شیطان مردود اس کے ذریعہ ہی بھی اپنے جال میں پھنسانا چاہتا ہے۔شیطان مردود نے اسے اپنا آلہ کار بنا لیا ہے۔
چاہے وہ ہمارے بابا جان ہی کیوں نہ ہوں 
۔ جی بیٹا ۔۔
چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ اگر اللہ کے احکامات کے خلاف کوئی اپنا بھی کچھ کہتاہے ۔تووہ ہمارا کچھ بھی نہیں ہے۔
کیوں کہ ہمیں جہاں جانا ہےوہ جگہ بہت اندھیری ہے ہم کو اپنے لئے یہیں سے روشنی لے کر جانی ہے اب یہ تمہارے ہاتھ میں ہے اس اندھیر نگری میں جانے کے لیے اس دنیا سے کتنی روشنی لے کر جاتے ہو ۔
بیٹا ہمیشہ کوشش کرنا ایمان کی سلامتی قائم۔رہے ۔کبھی بھی تعریف کے جال میں نہ آنا یہ بہت آسان شکار ہوتا ہے انسان کے دل پر حملہ کرنے کے لیے ۔۔
جی دادا۔۔۔میں آپ کی بات سمجھ گیا۔
میں اپنی نیکیوں کو بچانا ہے اور اپنے ایمان کی ہر صورت حفاظت کرنی ہے۔۔اللہ تمہیں سدا سلامت اور اپنی امان میں رکھے میرا بچہ۔۔انہوں نے خوش ہو کر اس کا ماتھا چوم لیا۔❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️ کیا بات ہے اسد۔۔ کچھ پریشان لگ رہے ہو ۔
اس کے قریبی دوست نے اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر اس کے دل کی حالت بھانپ لی۔
کیا بتاؤں یار ۔۔۔
کبھی کبھی تو اپنے آپ پر بہت غصہ آتا ہے کہ میں کتنا ناکام انسان ہوں اپنے بچے کی ایک چھوٹی سی خواہش بھی پوری نہیں کر سکتا۔
وہ بہت دل گرفتہ تھا فیضان کی اترے چہرے اور بہتےآنسو ؤں نے اس کے دل کو نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔
ہوا کیا ہے جو تم اس طرح حوصلہ ہار رہے ہو؟
اس کا دوست اکبر بھی متفکر ہوا۔
ہر سال بقرعید کے موقع پر اپنے بیٹے سے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کو بکرا کر لا کر دوں گا اگر ہر یہ اپنے اندر اتنی طاقت نہیں پاتا کہ بکرا خرید سکوں میں اس سے نظریں نہیں ملا پاتا کل رات بھی وہ بہت رویا۔پڑوس کے بچے نے اس کو بکرا نہ ہونے کا طعنہ دیا تھا ۔رات کو اس نے کھانا بھی نہیں کھایا بچہ ہے نا اب یہ بات سمجھتا ہی نہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں رعایت دی ہے ہم اس قابل نہیں ہیں ۔اللہ تو ہمیں رعایت دیتا ہے مگر یہ معاشرہ ہمیں بالکل بھی رعایت نہیں دیتا۔وہ ضد کر رہا ہے کہ اس کو بکرا لا کر دوں۔
 اب تم ہی بتاؤ اس مہنگائی کے دور میں کروناکی آفت میں وقت کی روٹی دسترخوان پر سجاناہی اوقات سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔
 اب میں ایک مزدور آدمی کہاں سے بکرا لے کر آؤں ۔بڑی مشکل سے بچے کو جھوٹی تسلی دے کر بہلایا ہے کہ انشاءاللہ عید سے پہلے بکرا لا دوں گا۔
مگر مجھے پتا ہے کہ میں یہ نہیں کر سکتا اس سال بھی اس کی آس ٹوٹ جائے گی اور میں اس کی نظروں میں گر جاؤں گا۔کیسا باپ ہمیں اپنے بچے کی خواہش پوری نہیں کر سکتا ۔
اس کا لہجہ بھراگیا۔۔
اکبر خاموش ہوگیا محلے کے چند ایک گھروں کو چھوڑ کر تمام لوگوں کی اسی طرح کی کہانیاں تھیں۔اکبر خود حاجی صاحب کے گھر میں ملازم تھا اس کی بھی اتنی آمدنی نہیں تھی کہ وہ اپنے دوست کی مدد کر سکتا۔وہ خود اسی کے قبیلے کا آدمی تھا مگر اس کو یہ سہولت حاصل تھی کہ حاجی صاحب کے جانوروں کے ساتھ اس کے بچے آرام سے کھیل لیا کرتے تھے۔۔
اللہ کی شان ہے۔۔
 اللہ حاجی صاحب کو اتنادیا ہے کہ شاندار سے شاندار جانور خرید لیتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ایک چھوٹا سا بکرا خریدنے کے لئے اوقات نہیں ہے۔
 حاجی صاحب نےجانور کتنا ہی شاندار کیوں نہ ہو مگر اس کا گوشت پورے محلےمیں برابر تقسیم کرتے ہیں اور اتنا اچھا گوشت دیتے ہیں کہ اور یہ بندہ بھی دو تین دن سے اچھی چیز کھا لیتا ہے۔
اسد نے فورا حاجی صاحب کی حمایت کی۔
ہاں یہ تو ان کی نیکی ہے۔
اسد تم تو جانتے ہو کہ میری بھی آمدنی اتنی نہیں ۔
یقین کرو میرا بہت دل چاہ رہا ہے کہ میں تمہاری مدد کر دوں لیکن میرے اپنے حالات بھی نارمل ہی ہیں۔
میں چاہتے ہوے بھی تمہارے لئے فی الحال کچھ نہیں کر سکتا۔وہ شخص شرمندہ تھا۔
ارے نہیں بھائی میں تمہارے دل کا حال جانتا ہوں۔
 تم واقعی بہت اچھے ہو ۔
یہ تو تم نے مجھے سے پوچھا تو میں نے اپنے دل کا حال تمہیں بتا دیا ۔ورنہ میں یہ بات کسی کو نہیں بتاتا۔اور لوگوں سے کہنے کا فائدہ بھی کیا ہے اس طرح شکوہ شکایت کرنے سے اللہ بھی ناراض ہو گا میں تو اپنے دل کی بات اللہ تعالی سے کرتا ہوں ہو سکتا ہےکہ وہ کوئی سبب بنا دے۔اللہ تعالی ہمارا واحد سہارا ہے۔
وہ دونوں باتوں میں اس طرح مگن تھے کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوا کہ کوئی تیسرا بھی ان کی تمام باتیں سن چکا ہے۔😎😎😎😎😎😎 
محلے میں قربانی کے جانوروں کی بہاریں تھیں۔بقرعید کا چاند نظر آ چکا تھا مگر اب تک حاجی صاحب کے بڑے سے ہال میں ایک مریل سے بکرا بھی کھڑا نہیں ہوا تھا جبکہ اس سے پہلے حاجی صاحب کے جانوروں کی گلی میں دھوم مچ جاتی تھی محلےکے لوگوں میں بے چینی پھیلی ہوئی تھی ۔ کچھ لوگ حاجی صاحب سے پوچھا بھی تو وہ مسکرا کر کہتے کہ آجائیں گے جانور ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ بچے بھی کچھ مایوس سے تھے ۔ان کو کھیلنے کے لئے کچھ نہیں مل رہا تھا۔دن گزرتے جا رہے تھے ویسے ویسے ہی لوگوں کا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا کہ اس بار تو کوئی خاص الخاص قسم کے جانور آ رہے ہیں جب ہی اتنی دیر ہوئی ہے۔
سب کا متفقہ خیال تھا حاجی صاحب تھے جو کہ بالکل مطمئن دکھائی دیتے تھے اور کسی کو پوچھنے کے باوجود بھی کسی کو بھنک نہیں پڑنے دی تھی کہ اس مرتبہ کے جانور کیسے ہیں۔سب ہی منتظر تھے 🐄🐄🐄🐄🐄🐄🐄🐄
محلے کے سارے بچوں کو حاجی صاحب نے بلایا تھا بچوں کے ماں باپ بھی حیران تھے کہ حاجی صاحب کو بچوں سے کیا کام پڑ گیا ۔سارے بچے گھر صاحب کے بڑے سے گیٹ کے سامنے جمع تھے ۔
سیڑھیوں پر بھی رش تھا۔آج تو کسی نیاز کا دن بھی نہ تھا ۔بچوں کو بلانے کا مقصد کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ہرایک کے ذہن میں سوال میں مچل رہے تھے۔حاجی صاحب کا چہرہ انتہائی پرسکون تھا۔بہت خاص مسکراہٹ ان کے لبوں پر پھوٹی پڑی تھی۔معصوم چہرے پر اشتیاق تھا۔حاجی صاحب نے سب کو ایک نظر دیکھا اور پھر دھیمے سے گویا ہوئے۔آپ سب اہل و خاص کر گلی کے لوگوں کو میرے جانب دیکھے گا بہت اشتہار تھا اس لئے میں نے سوچا کہ آج میرے جانور آرہ ہیں تو میں آپ سب لوگوں کوبلا کر دکھا دوں ۔وہ جانب آنے والا ہے اس لیے آپ لوگ میرے ساتھ گلی کے کونے پر آجائیں۔گلی میں گاڑی داخل ہوتی نہیں ہے۔لوگوں میں جوش بڑھتا گیا ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آج ہم نے سب لوگوں کو جمع کرکے اپنی قربانی کا جانور دکھانے کے لئے بلایا تھا ورنہ وہ یہ سب پسند نہیں کرتے تھے۔کا مطلب ہے کہ بہت ہی زبردست قسم کے جانور آرہے ہیں۔چہ مگو یہاں ہوئیں۔۔بچوں میں شور مچ گیا ۔بڑے بھی جانور دیکھنے کی چاہ میں امڈ آۓ۔باہر سوزوکی میں ایک بیل موجود تھے۔ خوبصورت اور توانا۔۔مگر اس نے اس سے کوئی خاص بات نہ تھی۔جو حاجی صاحب کے جانوروں میں ہوا کرتی تھی۔بس ایک جانور یہ بیل۔۔۔۔۔ لوگوں کے ارمانوں پر اوس پڑی۔
 منہ پھٹ نے تو کہہ بھی دیا۔
یہ کیا ہے جیسے ایک ہی بیل ۔۔۔۔
قربانی کا فرض ادا کرنے کے لیے کافی ہے ۔
ان کی گہری مسکراہٹ تھی۔
 اس کا مطلب ہے کہ اس بار گوشت کی چھٹی ہی سمجھو۔
 ایک نے مایوسی سے سرہلایا ۔
 نہیں کیوں ؟
سب کو ملےگا اور اچھا گوشت ملے گا۔
ایک بیل میں سے کتنا گوشت مل سکتا ہے ۔۔
محلے کے غریبوں کا منہ لٹک گیا۔
حاجی صاحب چہرے پر مسکراہٹ دیکھ رہے تھے کہ ایک بڑا سا ٹرک گلی کے کونے پر آکر رکا ۔
 اور ۔۔۔۔۔
سب حیران رہ گئے۔،💖💖💖💖💖
ابو ابو جلدی باہر آئیں۔
 فیضان ہانپتا ہوا اندر داخل ہوا ۔ جلدی آئیں۔۔
  اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا گلے کی رگیں پھولی ہوئی تھی ۔
الہی خیر ۔۔
آج اسد کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی وہ گھر پہ ہی آرام کر رہا تھا۔رمضان اور باہر نکل گیا تھا۔
 اسد بھی تیزی سے اس کے پیچھے باہر نکلا ۔جتنی تیزی سے وہ باہر نکلا تھا اتنی ہی تیزی سے ٹھٹھک کر رک گیا۔سامنے ہی ایک صحت مند اور خوبصورت سا بکرا کھڑا تھا جس کی رسی فیضان کے ہاتھ میں تھی ۔
یہ کس کا ہے فیضان۔
میرا بکرا ہے۔ اس نے سینہ پھیلایا۔سے اس کی آنکھیں دمک رہی تھیں۔
تمہارا کہاں سے آیا؟مگر پر یشان ہو اٹھا ۔
پتا نہیں کس کا بکرا کھول کر لے آیا تھا۔
حاجی صاحب نے دیا ہے کہ گھر لے جاؤ۔
بیٹا۔ بہت بری بات ہے کسی کا اتنا مہنگا جانور ایسے نہیں لیتے ۔تمہیںعقل نہیں چلو میں دے کر آؤں۔ابو حاجی صاحب نے مجھے دیا ہے یہ میرا ہے۔۔فیضان بلکنے لگا۔اس آدمی نے اس کے بعد سنی ان سنی کردی اور سیکھا کر آگے بڑھا۔فیضان روتا ہوا اس کے پیچھے تھا۔حاجی صاحب کے گھر کے سامنے بھیڑ تھی۔شکور کریانا والے کے ہاتھ میں بھی بکرا تھا۔عبدالرحیم سبزی والے کے ہاتھ میں بھی رسی تھی۔آس پاس کے چھوٹی گلیوں کے لوگ بھی تھے۔محلے کے انتہائی غریب گھرانوں کے سربراہوں کے ہاتھ میں بکرے تھے اور ان کے ساتھ روتے ہوئے شور مچاتے بچے۔شور کی آواز سن کر حاجی صاحب باہر آئے تو بچوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔اسد رسی تھامے آگے بڑھا ۔
حاجی صاحب یہ آپ کا بکرا ۔۔۔۔
معاف کر دیں بچہ لے آیا ۔۔
معافی کیسی ۔۔۔اس کا بکرا ہے وہ لے گیا۔۔جی وہ حیران ہوا۔آپ کو کہہ رہا تھا نہ ابو کے میرا بکرا ہے۔۔اور حاجی صاحب یہ ۔۔شکور بھی آگے بڑھا۔۔
یہ تمہارے بیٹے کا ہے۔اسد شکور حیرت سے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے تو ان کو بات سمجھ نہ آئی ہو۔
اپ سب محلے والے میری بات غور سے سنیں۔
حاجی صاحب اونچی سیڑھیوں پر کھڑے ہوئے تو ایک دم خاموشی سے چھا گئی۔
آپ لوگ سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کا مجھ پر بڑا کرم ہے اور میں اس کے دئیے ہوئے رزق میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہوں۔ریاکاری کے گناہ سے ہر ممکن خود کو بچاتے ہوئے خدمت خلق کرتا رہتا ہوں۔مگر بہت سے لوگ ایسے ہیں جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے۔میں ان لوگوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اچھے سے اچھا جانور بھی لیتا ہوں تاکہ عید کے موقع پر وہ لوگ بھی ہماری خوشیوں میں شریک ہو سکیں اور اچھے کھانا کھا سکیں جو اس کی استطاعت نہیں رکھتے ۔مگر مجھے کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ میں بڑوں کی خوشی کا تو خیال رکھتا ہوں لیکن کبھی بچوں کی بارے میں سوچا ہی نہیں۔اس بار اس بات کا خیال مجھے میرے پوتے نے دلایا۔بچہ بچے کی دل کی بات سمجھ سکتا ہے۔برے تو گوشت لے کر سو جاتے ہیں مگر کوشش میں کہاں دلچسپی ہوتی ہے ان کی تو ساری خوشی جانور کا خیال رکھنے میں اس کو گھمانے پھرانے میں اس کو کھانا کھلانے میں ہوتی ہے۔۔
یہ معصومین فرشتے ان کو گوشت سے کیا لینا دینا۔میرے اپنے ہاتھ سے میرے بچپن کی یادیں محفوظ ہیں جس میں میں جانوروں کے ساتھ رہنا سرفہرست ہے۔اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ اس بار میں مہنگے جانور نہیں خریدوں گا۔بلکہ اسی رقم سے بکری خرید لے جائیں اور عجیب و غریب گھرانے کے بچوں کے لئے دے دیے جائے تاکہ وہ عید کو اچھے طریقے سے منا سکیں۔ان کے ساتھ وقت گزاریں اپنی عید کو یادگار بنائیں۔
 گوشت لینے والے بھی اس بار گوشت بانٹیں گے اور دھوم سے عید منائیں گے ۔یہ انوکھی باتیں ایسا تو کبھی نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا۔حاجی صاحب۔۔اسد نی فرط مسرت سے نعرہ لگایا۔ زندہ باد۔۔سب کی آوازوں سے محلہ گونج اٹھا۔۔یہ اب انہیں گنہگار مت کرو بس دعا کرو کہ اللہ تعالی یہ قربانی قبول کرلی حاجی صاحب نے انکساری سے لوگوں کو روک دیا تھا۔اور بھائی ابھی اپنے جانوں لے کر جاؤ ۔۔
میرے گھر کے آگے رش کیوں لگایا ہوا ہے چلو بچوں اپنے جانور لے کر بھاگو۔۔۔اور ہاں ان کا اچھی طرح سے خیال رکھنا۔یہ اللہ کے مہمان ہیں ۔۔آپ لوگ ان کے کھانے پینے کی فکر نہ کرنا تمام کھانا اور قربانی کے تمام اخراجات بھی میرے ہی زمے ہیں۔اور چھوٹو۔۔۔۔ تو مجھے حصہ دو گے۔۔شیخ صاحب نے جن کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔صاحب آپ کو تو میں اچھا والا گوشت دوں گا۔فیضان نے فخر سے کہا توسب ہنس دیئے۔
فیضان اپنے بکرے کی رسی تھامے گھر کی طرف چلا ۔۔۔ابو میں اسکو اچھا والا ہار پہناؤں گا ۔اور پیروں میں چھن چھن بھی ۔۔ابو مہندی سے عید مبارک بھی لکھوں گا۔
اس کی زبان کتر کتر چل رہی تھی ۔اسداللہ حیدری میں اللہ کے حضور شکر گزار تھے جس میں اس کی لاج رکھ لی تھی ۔۔گول گلی میں پہلی بار انوکھی عید آئی تھی۔
نیر فہیم خان ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے