لفافہ باجی

نیر فہیم خان ۔

ثروت باجی کا شمار ان  خواتین میں  ہوتا تھا جن کی مثالیں دے کر مائیں اپنی بیٹیوں کو اور ساسیں   اپنی بہووں کو  اور بڑی بہن چھوٹی بہنوں کا کلیجہ جلا کر راکھ کیا کرتی تھیں۔مرد حضرات کی اس کار خیر میں حصہ لے کر اپنے فرض دل جلائی کو بخوبی انجام دیا کرتے تھے

ثروت باجی کو  دیکھیں تو مناسب صاف ستھرا لباس میں ،دھیمے رنگوں سے سجی خوبصورت شخصیت نظرآتی تھی ۔

نرم  مسکراہٹ، پر سکون چہرہ کبھی ماتھے سلوٹ  نہ دیکھی۔ اتنی گرم جوش انداز میں ہاتھ تھام کے سامنے والے سے ملتیں کہ اس کے دل میں اٹھنے والے تمام شیطان حیرت اور اڑ جاتے ناراض چہروں سے اتنے پیار سے ماں نے کردی دلوں کا کینہ سیاستدانوں کے اثاثوں کی مانند کبھی  سامنے ہی نہ آ پاتا تھا ۔

دو بیٹے شادی شدہ تھے اور ساتھ ہی رہتے تھے۔

 ایک بیٹی شہر کے دوسرے کونے میں  بیاہی گئی تھی شوہر ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔ وہ گھریلو ذمہ داریوں سے فارغ تھیں اس لیے محلے کے ہر گھر کی ذمہ داری انہوں نے اپنے کاندھوں پر لے لی تھی۔ اکثر لڑکیاں ان  کو ان کی سلیقہ مندی کی وجہ سے  ان کو زبیدہ آپا  کا کہا کرتی تھیں ۔بتانا سے مسکرا دیا کرتیں ۔

اس محلے میں نئ شفٹ ہوئی تھی۔ کرائے کے مکان کی جھنجھٹ سے آزاد ہو کر اپنا گھر لیا تھا ۔

میں نے میاں صاحب سے فرمائش کی کہ جب بھی گھر لیں  پڑوس کے بارے میں اچھی طرح چھان بین کر کے گھر لیں ۔

 بد مزاج پڑوس  بھی ایک عذاب ہوتا ہے جس کو عمر بھر بھگتنا  پڑتا ہے۔

 اللہ تعالی نے اپنے گھر کا سکون عطا کیا  ہے تو ماحول  دیکھنا بھی ہمارا فرض ہے ۔

متوسط علاقے میں دو کمروں کا مکان  میرے لیے تھا۔ مجھے یاد ہے جب ہم  گھر شفٹ ہوئے تھے تو چار بچوں کے ساتھ گھر کو سمجھنا ایک کھٹن کام تھا۔

 پورے گھر میں باکس کی بھرمار تھی۔ سب سے پہلا کام کچن سیٹ کرنے کاتھا۔

 اسی کا سارا سامان کھولے بیٹھی تھی ۔ کچن کی صفائی کرنے میں ہی کمر توٹ گئی تھی ۔

سارے سامان کی کی جگہ بنا کر نئے طریقے سے سیٹ کرنا بھی ایک مشکل عمل تھا۔

  میں ان سب سے الجھ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی 

میں نے دروازہ کھولا تو وہ سامنےتھیں۔ ۔۔ اسلام علیکم بیٹا ۔میں ثروت ہوں آپ کی پڑوسن ۔۔

انہوں نے پہل کی۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔

میں شرمندہ ہوئی ۔ 

گھر کی حالت ایسی تھی کہ کسی  کو بلانا باعث شرمندگی ہی ہوتا ۔میں کشمکش کے عالم میں تھی کہ انہوں نے بھانپ لیا ۔

 بیٹا !میں نے دیکھا ہے کہ تمہارے چھوٹے بچے ہیں اور کام زیادہ ہے۔ لیکن  فکر نہیں کرو۔سب  ہوجائے گا میں تمہارے لیے کھانا لے کر آئی ہوں۔ اسے کھا لو توانائی آئے گی پھر کام کرنا ۔

اب اتنے پھیلاوے میں کھانا کیسے بناؤ گی ۔

انہوں نے نرمی سے کہا۔

 تو میری نظر سے  سائیڈ میں کھڑے لڑکے کی طرف  گئی جس کے ہاتھ میں ٹرے تھی وہ بجائے میرے گھر کی طرف چہرہ کرنے کی طرح دوسری طرف رخ  موڑ ے کھڑا تھا ۔۔۔مجھے اس کا انداز اچھا لگا ۔۔۔

ارے اس کی کیا ضرورت تھی ؟پلیز آپ اندر آئے نا ں۔۔

نہیں ابھی تو تم  مصروف ہو۔

 کھانا کھا لینا۔ اور پھر  کمر ٹکا لینا۔۔۔ کام تو تم نے ہی کرنا ہے آدھے گھنٹہ بعد ہو  جاے تو کیا فرق پڑتا ہے۔لوگ تو یہی پھر آجائیں گے یہ لو ۔۔

انہوں نے بڑی سی ٹرے جو کی خوان پوش  سے ڈھکی تھی میرے آگے بڑھائی۔

 یہ میرا پوتا ہے احسن ۔

انہوں نے  تعارف کرایا ۔

اسلام علیکم باجی۔۔

 اس نے ادب سے سلام کیا۔

 ماشاء اللہ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا 14 سال کا بچہ تھا لیکن نہایت تمیز دار ۔۔۔

بہت شکریہ ۔۔

میں دل سے ممنون ہوئی۔

 ان کا میرے دل میں گھر کر گیا تھا۔آباد رہو اللہ تعالی سکون  دے ۔

 اپنے گھر کی خوشیاں دیکھو۔

مسکراتی پلٹ گئیں ۔

لیے یہ من و سلویٰ تھا ۔۔

صبح سے کام کر کے اس بری طرح تھک گئی تھی ۔

کچن میں کھڑے ہونے کی بالکل بھی ہمت نہ تھی مگر بچوں کی خاطر پکانا پڑتا ۔

فرج تو اسد سیٹ کرکے چلے گئے تھے مگر اس میں بھی خالی پانی کی بوتل کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا ۔

  دال چاول کے ساتھ  سلاد اور اچار ایک مگ میں دودھ ، چھوٹے کے لیے ایک باؤل  میں  نوڈلز بھی تھے ۔جو بچوں  کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائے گئے تھے

 سب نے سیر ہو کر کھانا کھایا تھا۔ پیٹ میں لقمہ پڑا تو اعصاب  ڈھیلےث پڑے  غنودگی بجانے  لگی تھی۔۔

 آپا کا کہا یاد آیا کہ تھوڑی دیر آرام کر لینا۔بچے بھی تھک  تھے۔

  سو گئے ۔

میں نے  بھی کمر ٹکا لی ۔ ایک گھنٹہ سو کر جب اٹھی  تو بالکل فریش  تھی۔جو کام تھکن کے باعث سیٹ کر دو گھنٹوں میں پڑھی وہ ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد گھنٹہ گھر میں ہی ہو گیا ۔

یہ ان سے ملاقات کا پہلا سبق تھا کہ جسم کو اس کی قوت سے زیادہ استعمال کرنا وقت بچانا نہیں بلکہ خود کو تکلیف دہ حالت میں لانا ہے۔شام کو اسد  کی آمد پر  فریش کھانے کے ساتھ خود بھی پرسکون  تھی ۔کچن سیٹ تھا ۔بس بڑے برتن تھے جو اسد کی مدد سے سیٹ ہونے تھے ۔

کیا بات ہے؟

 بڑی فریش ہو !بنا ہائے ہاے کھانا لگ رہا ہے۔

 ورنہ تو ابھی تم نے اودھم مچا دینا تھا ۔

وہ بھی حیران تھے۔

ہاں تو کیا کرو گے تو ایسا کمزور ہوں گے اور چڑچڑاپن تو آ ہی جائے گا گھر کا کھانا آ گیا تھا۔

تو پھر کھانا کھانا بنانے میں جو ٹائم اس سے فائدہ اٹھا کر میں نے دوپہر میں قیلولہ کر لیا جب شام کو اٹھی تو جسم بالکل تروتازہ تھا اس لئے کام  جلدی جلدی نمٹ گیا ۔

میں نے مزے سے کہا۔

ماشاءاللہ پہلے دن ہی محلے داری شروع کر دی۔

ایک بڑی اچھی سی خاتون تھیں ثروت انام بتا رہی تھی وہی آئ  تھیں کھانا لے کر۔۔۔۔

 انہوں نے  مشورہ دیا کہ تھوڑی دیر آرام کرو پھر کام کر لینا۔۔۔

وہ شاید کونے والے گھر میں ملک صاحب کی بیگم ہیں۔

 ان کا نام بہت سنا ہے میں نے۔۔۔

نہیں اگر یہ وہی ہے تو بڑی نفیسں خاتون ہیں۔۔

تھوڑا سا اچھا پڑوس مل گیا  اور پسند بھی آگیا ورنہ میں تو صبح کا کیا رات کو آتا ہوں ۔ مجھے فکررہتی ہے کہ  بچوں کے ساتھ گھر پر  اکیلی ہوتی ہو۔

کیا خیال ہے آپ کا ۔۔۔ہرچیز میں کیڑے نکالتی ہوں۔

 میں نے آنکھیں سے نکالیں ۔

مجھے صحیح تو نہیں لیکن تمہیں چین سے بہت مشکل سے ہی پسند آتی ہیں ۔

رشتے تو آپ کو اللہ دیتا ہے کہ آپ کی اس میں کوئی چوائس نہیں ہوتی لیکن دوستی تو آپ اپنی پسند سے انتخاب کرتے ہیں اور میں اپنی پسند کو کو مدنظر رکھتے ہوئے ہیں کسی بھی چیز کا انتخاب کرتی ہوں۔

یہ بات ہم سے زیادہ کون جانے کا پورے پانچ سال جوتیاں گھسوائیں  ہیں تم نے ہماری اماں کی۔ وہ ٹھنڈی آہ  لے کر بولے تو میں مسکراتی اٹھ کھڑ ی ہوئ۔

🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋🦋

ثروت باجی  بہت نفیس اور سلیقہ مند خاتون تھیں محلے میں بڑی عزت تھی میں جو گھبرا رہی تھی کہ نئ جگہ پر کیسے رہوں گی ۔کس طرح  سیٹنگ کرو ں گی۔

 اللہ کے حکم سے سب نمٹ گیا۔پہلے کاروں سے اچھی دعا سلام تھی  ان کی وجہ محلے والوں سے متعارف ہوئی تھی ۔

وہ مجھے اکثر اپنے ساتھ لے جاتی تھیں ۔

آج تم فارغ ہو ۔۔۔؟

دعا سلام کے بعد انہوں نے عجلت سے  پوچھا۔

جی۔۔۔فی الحال تو فارغ ہی ہوں مگر اب اندر تو آئیں۔۔

 نہیں۔۔۔ ابھی آ نہیں سکتی۔

 سامنے والی ثمینہ کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے ۔

تم چلتی ہو تو چلو ۔۔۔

ایک سے دو بھلے ۔۔۔

نہیں تو پھر میں چلوں۔

اوہ !یہ تو بہت بری خبر ہے ۔۔

میں بھی چلتی ہوں۔

 اور  اندر سے چادر  لے آؤں ۔۔چھوٹے کو جلدی سے گود میں لے کر بچوں کو ٹی وی پر کارٹون لگا دیے ۔اور باہر نہ جانے کی تاکید کرتے ہوئے  ان کے ساتھ نکل آئی۔

ثمینہ  باجی کو دیکھتے ہیں ہمت ہار گئ۔ اس کے بیٹے کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی قریب زمین پر بے بسی کی تصویر بنا لیٹا تھا۔

 میرا بچہ ۔۔۔۔نہ کہانی آگئی ہے اچھا بھلا گلے میں کھیل رہا تھا نہ جانے کون کمبخت کر مار کے چلا گیا وہ ان کے گلے لگ کر رو رہی تھی۔کراچی ان کی قبر کو ہولے ہولے تھپک رہی تھیں۔ اسماء دل بوجھل ہو گیا۔۔۔

 ایک  ماں ہی   دوسری ماں کی تکلیف کو محسوس کر سکتی ہے  مامتا کا درد کیا ہوتا ہے یہ ایک ماں سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔

 ثمینہ کو  روتا تڑپتا بلکتا دیکھ کر کر اس کا دل  بھی دکھ رہا تھا ۔۔

ثمینہ تم بھی میری بیٹی ہی ہو ۔اب تم اس طرح روو گی کہ میرا کلیجا نہیں جلے گا۔۔۔

بیٹا!  صبر کرو...

جی!

آپ کے آنے سے حوصلہ ہوا ۔۔میں بھی دل چھوڑ بیٹھی۔اپ کو ڈھنگ سے بیٹھنے کو بھی نہیں کہا۔۔۔میں چاے لاتی ہوں ۔

حواس قابو میں آۓ تو اس نے مجھے بھی دیکھا۔  ہم چاے پینے نہیں تمھارے بچے کی طبیعت پوچھنے سے ہیں ۔

مگر آپ تو پہلی بار آئ ہیں ۔وہ اٹھنے لگی 


نہیں ثمینہ! تم بیٹھو ۔۔۔چاے بھی ہیں گے سموسے بھی کھائیں گے اور حمزہ خود چل کر  شمس بھائ کے سموسے لاے گا۔ ہی نا ں حمزہ ۔۔۔

انہوں نے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا میں پھر سے۔ چل پاؤں گا ناں۔۔۔

اس کے لہجے میں امید تھی ۔ جی ضرور بیٹا۔  ان شاءاللہ تعالیٰ۔

 پھر سے بھاگو گے دوڑو گے ۔۔۔کچھ دنوں کی بات ہے۔۔

اور تمھارے دونوں بھائیوں نے کہا ہے کہ باجی کو کوئ بھی کام ہو تو ہم سے کہیں ۔انہوں نے اپنے بیٹوں کا حوالہ دیا ۔

ثمینہ کی آنکھوں میں آنسو آگیے ۔

 اللہ سلامت رکھے آپ کو۔۔۔

 میکے کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے ۔

 اس کے لہجے میں تشکر تھا ۔

شکر الحمد اللہ رب العالمین ۔۔۔

اس نے ہی ہمارے دل میں نرمی ڈالی ۔

بس فکر نہیں کرو نا اللہ سے شکوہ کرنا ۔ اس کی مصلحت ہے بڑی مصیبت کو چھوٹی پر ٹال دیا ہے ۔ 

شکر کرو بچہ ٹھیک ہے اور آنکھوں کے سامنے ہے۔ 

صبر سے اس گھڑی برداشت کرنا ۔وقت تو روتے ہوے بھی گذر جاے گا۔

 شکوہ کرو گی تو گناہ ہوگا اور صبر کرو گی تو اجر ملے گا ۔بچہ تو اپنے وقت پر ہی ٹھیک ہوگا ۔ بس ہمت سے اس وقت کو گذارنا ۔۔

کہ رب ناراض نہ ہو ۔۔۔۔

ان کا نرم شہد آگیں لہجہ قطرہ قطرہ سماعت میں اتر رہا تھا ۔

جی آپا۔۔۔۔

اب خود کو سنبھالو ۔۔بچےکو بھی دیکھنا ہے ۔میں چلتی ہوں ۔۔

انہوں نے ثمینہ کا ہاتھ تھام کر کچھ اس صفائی سے منتقل کیا کہ میں بھی ہلکی سی جھلک ہی دیکھ پائ تھی۔۔۔ہم اٹھ کھڑے ہوے اور میں چاہنے کے باوجود بھی پوچھ نہ سکی ۔

🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀

دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے تھے کروناوبا پوری دنیا میں پنجے گاڑ لئے تھے۔

 ہر ملک ہر گلی میں خوف کا عالم تھا کاروبار بند ،مل جو ل پر پابندی ۔لوگوں میں خوف ہراس ایسا کبھی دیکھا نہ سنا فیکٹریوں، ملوں کی بندش سے ہزاروں لوگ  بیروزگار ہوئے تھے۔ لاکھوں گھرانے متاثر ہوئے تھے۔

انہی میں سے ایک میرا گھرانہ تھا میاں صاحب کو بھی فارغ کر دیا گیا تھا۔ اس کے  یادہانی کے ساتھ جب حالات معمول پر آئیں گے تو آپ بھی واپس آئے جائیے گا۔

مگر یہ کسی کو بھی نہیں پتا تھا کہ حالات کب ٹھیک ہوں گے؟ 

اور اس وقت گھر کیسے چلے گا ؟سوچ کے حالات خراب ہوئے جا رہی تھی ابھی تو نیا گھر لیا تھا اسے قرض میں اور سیٹنگ میں  بچی کچھی ساری رقم ختم ہو گئی تھی اب تو کچھ باقی بھی نہیں بچا تھا ۔جس سے دال دلیہ چلایا جاتا ۔دن ہفتے اور ہفتہ مہینے میں بدل گیا تھا مگر کوئی کوئی حالات کی بہتری کی امید نظر نہیں آرہی تھی۔

ہم تو گھر کو سیٹ کرنے نہیں اپ سیٹ ہو کے رہ گئے تھے۔۔

میاں صاحب کی شکل اتری ہوئی تھی۔حالات ایسے تھے کہ سوائے صبر کے کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

ایسی ہی نڈھال دنوں  جب کوئ کسی کے گھر نہیں آتا جاتا تھا ۔

دروازے پر دستک ہوئی۔

 میں نے دروازہ کھولا تو ثروت باجی کھڑی تھیں ۔السلام علیکم اسماء کیسی ہو ،،،؟وعلیکم السلام ۔۔لاو بیٹا  سینیٹائزر تو میں ہاتھوں پر ملو ں۔

میں نے دروازے پر رکھا ہوا سینیٹائزر ان کے ہاتھ میں دیا۔

وہ اندر  آگئیں اور حسب عادت گلے لگانے سے اجتناب کیا 

 ۔احتیاط اچھی چیز ہے بیٹا۔۔۔

ٹھیک ہوں جی ۔۔۔

اتنے ہی دن ہوگئے تمہاری شکل نہیں دیکھی تھی سوچا کہ آج تو مل کر آؤں۔

اچھا کیا کہ آپ آگئیں۔۔

 آج کل تو کوئی بھی کسی سے ملنا ہی نہیں پتا ہی نہیں چل رہا ہے کہ محلے میں کیا ہو رہا ہے۔

ہاں بیٹا ۔۔۔ ۔آج حارث نے ہی  پوچھا کہ آسماء باجی کا کیا حال ہے ؟

تو میرا دھیان تمہاری طرف گیا تو میں نے سوچا مل آؤں ۔۔

حارث مجھے ابھی بھی نہیں آ نے دےرہا تھا لیکن میں نے کہا کہ میں پوری احتیاط کروں گی تم فکر نا کرو۔۔۔۔

بھائی کو ہی اپنی بہن کا خیال آیا تھا ماں تو گھر داری کے کاموں میں بیٹھے ہیں بیٹی کو بالکل ہی بھول گئی۔

وہ اس انداز سے بات کر رہی تھیں کہ بندہ بے بس ہو جاتا تھا۔آسماء کا  میکہ بھی بہت دور تھا اور نرم لہجے میں چھپا تفکر سن کر اس کا دل بھر آیا۔

جی ۔۔ گھر میں تھوڑی بہت پریشانی تھی ۔

میں بھی آپ کو فون نہیں کر سکی۔


تو پھر مجھے کیوں نہیں بتایا ۔

انہوں نے خفگی کا اظہار کیا۔

بس وہی پریشانی۔۔جو  محلے کے ہر گھر میں ہے کاروبار کی کام کی۔۔۔۔

نہ چاہتے ہوے بھی اس کا لہجہ بھیگ سا گیا۔

بیٹا حوصلہ نہ ہارنا ۔۔مشکل کے دن ہے بیت جائیں گے کبھی برا وقت رکتا نہیں ہے۔ہمت والی بچی ہو 

حوصلہ نہ ہارو۔۔۔

سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

آپ کی بات  تو حوصلہ دیتی ہے مشکلات سے لڑنے کا اور پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے کا۔۔

اس مالک کا جس نے میری ذات کو اچھے کا وسیلہ بنایا چلو تمہاری شکل دیکھ لی سکون ہو گیا۔۔میں چلتی ہوں مجھے کچھ اور گھروں میں بھی جانا ہے ۔ 

 سب سے محلے والوں سے ملتی ہوئی گھر جاؤں گی۔

ڈاکٹر بیٹا دوبارہ مجھے نکلنے نہ دے۔

موقع سے فایدہ اٹھا لوں ۔

وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔

 اور جاتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملایا  میرے ہاتھ سے کچھ ٹکرایا میں نے چونک کر دیکھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے گردن ہلائی اور فورا ہی باہر نکل گئیں ۔۔۔۔

اس نے ہتھیلی سامنے کی تو چھوٹا سا لفافہ تھا۔

اسد بھی باہر آگئے ۔چلی گئیں۔باجی 

جی ۔۔۔۔ تم چاے کا تو پوچھتیں ۔۔

میں نے بنا کچھ کہے لفافہ آگے بڑھا دیا ۔۔

اسد نے چونک کر دیکھا ۔۔

اس میں پانچ ہزار کے دو نوٹ تھے ۔ساتھ ہی پرچہ تھا ۔

اس نکال کر پڑھنے لگے۔

پیاری اسماء

 خوش رہو

 میں جانتی ہوں کہ تم صاحب نصاب ہو اللہ کے حکم سے تم پر زکوۃ خیرات نہیں لگتی ہے ۔

مگر اس زمانے اچھے خاصے سفید پوشوں کے حالات کو خراب کر دیا ہے۔ایک چھوٹا سا تحفہ تمہاری نظر ہے یہ تمھاری خود داری کو مجروح نہیں کرے گا کیونکہ اس میں میری بھی غرض شامل ہے۔

اللہ تعالی کا حکم ہے کہ اس کی راہ میں ایک خرچ کرو تو وہ اس کو بڑھا کر  دیتا ہے تو بس بیٹا میں اپنی آخرت کے لئے نیکیاں جمع کر رہی  ہوں۔تم قبول کر لو گی تو مجھ پر احسان ہوگا ۔

تمہاری باجی ثروت۔

 اس نفسا نفسی کے دور پر انہوں نے کس محبت اور پیار سے ہماری مدد کی تھی۔آج مجھے ان کی بند مٹھی کا راز سمجھ میں آ گیا تھا ۔۔۔

تو یہ راز تھا جس  کے بارے میں تم جاننا چاہتی تھی۔

  کتنی خوبصورتی سے انہوں نے ہماری مدد کی ہے۔

 اس سے پہلے تو صرف لفافہ صحافی ہی سنے تھے۔

 جو لفافے کی خاطر دین و دنیا اپنی  آخرت کا سودا کر بیٹھے تھے۔

 آج پہلی مرتبہ  لفافہ با جی سے ملا ہوں۔

 جو اس لفافے کے ذریعے اپنے آخرت کے لیے کا سودا جمع کر رہی ہیں۔

 لفافہ باجی ۔۔۔

میرے لبوں پر ہی مسکراہٹ اگئ۔۔

 اسد۔۔۔میں بھی انشاء اللہ لفافہ باجی بنوں گی۔جملے میں چھپے ہوئے پیغام کو اسد بخوبی سمجھ گئے۔

انشاءاللہ ۔۔۔

اور مسرتوں کے موقع پر ایک دوسرے کو لفافے دیتے ہیں تو پریشانی اور غم کے موقع پر کیوں نہیں ۔۔۔۔اس وقت میں اس کی خاص ضرورت ہوتی ہے۔

ثروت باجی نے جو دیا جلایا ہے ہم اس کو پہنچنے نہیں دیں گے ۔ انشاللہ ضرور ۔اسد نے پر عزم لہجے میں کہا ۔

صبح سے ہم بہت پریشان تھے مگر ایک چھوٹے سے لفافے نے ہماری سوچ بدل دی تھی۔۔۔۔۔۔ہر لفافہ برا نہیں ہوتا کچھ لفافے اچھے بھی ہوتے ہیں ۔۔ختم شد 1

نیر فہیم خان 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے